واشنگٹن،3اپریل(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)ایک رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اطفال کے جنسی استحصال کی تصاویر اور ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر ڈالنے کے معاملے میں یورپ گلوبل ہب بن رہا ہے۔انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن (آئی ڈبلیو ایف) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں غلط استعمال والے مواد کا 60 فیصد اب یورپ میں پایا جاتا ہے جو کہ پہلے کے مقابلے 19 فیصد زیادہ ہے۔آئی ڈبلیو ایف نے کہا ہے یورپی ممالک میں غیر قانونی مواد ڈالنے کے معاملے میں نیدرلینڈز سرفہرست ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی امریکی ممالک میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کی جانب سے نگرانی اور رپورٹنگ کے ترقی یافتہ نظام کے سبب اب یہ کام وہاں کے بجائے یورپ کی جانب منتقل ہوا ہے۔آئی ڈبلیو ایف کی سربراہ سوسی ہارگریوز نے کہا: گذشتہ سالوں کے مقابلے میں حالات اب الٹ گئے ہوں۔ شمالی امریکہ کے مقابلے میں اب یورپ اطفال کے جنسی استحصال کا سب سے بڑا منبع و مخزن بن گیا ہے۔خیال رہے کہ آئی ڈبلیو ایف برطانوی ادارہ ہے جو کہ برطانیہ میں انٹرنیٹ سے غلط مواد کو تلاش کرکے اسے وہاں سے ہٹاتا ہے۔
آئی ڈبلیو ایف کے اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2015 میں غلط مواد سے پر 57 فیصد صفحات شمالی امریکہ سے انٹرنیٹ پر ڈالے جاتے تھے۔ سنہ 2016 میں یہ کم ہو کر 37 فیصد رہے گئے اور اب زیادہ تر صفحات یورپ سے ڈالے جا رہے ہیں۔آئی ڈبلیو ایف نے بتایا کہ یورپ سے انٹرنیٹ پر ڈالے جانے والے 34212 صفحات ایسے پائے گئے جس میں غلط مواد تھے۔ یورپی ممالک میں روس اور ترکی بھی شامل ہیں۔
سوسی ہارگریوز نے کہا کہ اس منتقلی کا مطلب ہے کہ امریکی صنعت اس مسئلے کے حل کے لیے بہت کام کر رہی ہے اور اس نے مجرموں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے مواد کو اپ لوڈ اور شیئر کرنے کے لیے کہیں اور جائیں۔امریکہ میں گم شدہ اور استحصال کیشکار بچوں کے قومی مرکز این سی ایم ای سی کے نائب صدر جان شیہان نے کہا کہ امریکی آئی ایس پیز کی جانب سے اس طرح کے مواد کی نشاندہی اور پھر اس کو ہٹانے کا کام اس سمت میں 'قابل قدر علامات ہیں۔انھوں نے کہا کہ امریکی قانون میں یہ بات شامل ہے کہ آئی ایس پیز جب ایسے مواد دیکھیں تو حکام کے اس کے بارے میں مطلع کریں۔
انھوں نے کہا کہ یورپ میں کوئی بھی کمپنی سرگرمی کے ساتھ ایسا نہیں کرتی جس کی وجہ سے رپورٹ میں یہ تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔نیدر لینڈز کی ایک رکن پارلیمان اردا جرکینز جو انٹرنیٹ پر غلط مواد کے خلاف مہم کی نگرانی کرتی ہیں انھوں نے کہا کہ انھوں نے گذشتہ برسوں میں آئی ایس پیز کی جانب سے ایسے مواد کے خلاف رپورٹ میں اضافہ دیکھا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ یورپی پالیسی میں گذشتہ 12 مہینوں میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آئی ہے کہ جس کے سبب ایسا ہو۔برطانیہ میں بچوں کے خلاف ظلم کو روکنے کی قومی سوسائٹی کی ترجمان نے کہا کہ بچوں کے جنسی استحصال والے مواد کی مانگ میں اضافے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدام کی ضرورت ہے اور یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے بچوں کے جنسی استحصال والی تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھنے سے باز رکھنے کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں۔